حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق: معروف و مشہور عارف و زاہد آیت اللہ حاج سید عباس کاشانی کے حالات زندگی میں یہ واقعہ بیان کیا گیا ہے کہ جس زمانے میں وہ مریض تھے اسی دوران چند قریبی افراد، جن میں حجۃ الاسلام والمسلمین سید میر ہاشم حسینی اور ڈاکٹر فرہاد غریب دوست شامل تھے، ان سے ملاقات کے لیے حاضر ہوئے۔
اس ملاقات کا بنیادی مقصد ڈاکٹر غریب دوست کے ذریعے ان کا طبی معائنہ تھا۔ اس دوران آیت اللہ کاشانی نے اپنی بیماری کے حوالے سے کچھ باتیں کیں، جن میں فرمایا: "پندرہ سال سے اپنی بیماری کی وجہ سے اپنی کتابوں کی لائبریری، جو نیچے کی منزل میں ہے، نہیں جا سکا۔ لیکن یہ سب قرآن میں ذکر کردہ اللہ کے عذابوں کے مقابلے میں کچھ بھی نہیں۔"
انہوں نے مزید کہا: "ہم قرآن کی آیات کو ایک طرفہ نظر سے دیکھتے ہیں۔ ہم صرف رحمت، جنت، اور حور و غلمان کی آیات پر توجہ دیتے ہیں، لیکن عذاب اور سخت عذاب کی آیات کو نظرانداز کر دیتے ہیں۔"
آیت اللہ کاشانی نے اپنی رضا کا اظہار کرتے ہوئے فرمایا: "میں اپنی تمام بیماریوں پر راضی ہوں۔ میں نے خداوند سبحان سے عرض کیا کہ اگر میری بیماری اس حد تک پہنچ جائے کہ میرا خاندان میری دیکھ بھال سے تھک جائے اور مجھے کسی بیابان میں چھوڑ دے، جہاں پرندے میرے جسم کا گوشت نوچ کر کھا جائیں، تب بھی مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ بس یہ خواہش ہے کہ برزخ اور قیامت میں مجھ پر کوئی عذاب نہ ہو اور مجھ سے بازپرس نہ کی جائے۔"
حوالہ: از داستانها باید آموخت، صفحہ 31۔